دانش ڈل جھیل کے کنارے اپنے شوروم میں ایک چھوٹا سا چرخہ کات رہے ہیں۔ یہ
چرخہ چلتا ہے تو کشمیر کی مشہور پشمینہ شال بنانے والے دستکاروں کی زندگی
چلتی ہے۔
لیکن آج کل وادی میں عام زندگی کی طرح یہ چرخہ بھی رک رک کر چلتا ہے کیونکہ
حالیہ شورش کی وجہ سے سیاحوں نے وادی کشمیر سے منھ موڑ لیا ہے۔ دانش کہتے ہیں کہ ان کے ساتھ پہلے ڈیڑھ سو خاندان کام کرتے تھے لیکن آج کل
تقریباً سب خالی بیٹھے ہیں۔ 'آج کل وہ چھوٹا موٹا کام کرتےہیں، جن لوگوں سے
ہم 20 یا 30 شالیں خریدتے تھے، اب ایک دو ہی لیتے ہیں، وہ بھی
برآمد کے
لیے۔ قریب ہی طاہر کا شو روم ہے لیکن انھیں مقامی سیاحوں کا انتظار نہیں ہے۔ وہ
اخروٹ کی لکڑی پر نقاشی کے کام والا سامان بیچتے ہیں جو اتنا مہنگا ہے کہ
اسے زیادہ تر غیرملکی ہی خریدتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ 'اگر آپ پچھلے سال آج ہی کے دن مجھ سے ملنے آئے ہوتے تو
میرے پاس آپ سے بات کرنے کے لیے وقت نہ ہوتا۔۔۔ لیکن اس سال کاروبار بالکل
ختم ہے، سیاست سے بڑی تعداد میں لوگوں کی زندگی جڑی ہوئی ہے، شکارے والے،
ٹیکسی والے، ہوٹل والے، دستکار۔۔۔ سب کو بھاری نقصان ہو رہا ہے، ہم بس کسی
طرح وقت گزار رہے ہیں